میری سرشت میں ہے خطا
اور کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایک بہترین طالبہ تھی۔اگر لفظ اسے منتخب کر رہے تھے تو وہ لفظوں سے چار قدم آگے دوڑ کر انہیں پا رہی تھی۔وہ تین سال کا نصاب ایک سال میں ختم کر کے دوسری جماعت میں پہنچ چکی تھی۔اور اس میں عمل دخل صرف اسکی لگن کا نہیں تھا اسکے مہربان استاد کا بھی تھا۔انہوں نے کبھی اسے کلاس میں نہیں بٹھایا تھا۔وہ اسے اپنے پاس اپنے دفتر میں بٹھاتے تھے۔ساڑھے سات بجے انکے پہنچنے سے پہلے وہ دفتر کے باہر موجود ہوتی تھی۔دوپہر دو بجے آخری گھنٹی بجنے کے بعد وہ اپنا بستہ بند کرتی تھی۔وہ بستہ جو اپنے اندر موجود ہر چیز سمیت مہربان استاد کی ہی ایک مہر بانی تھا۔ان مہربانیوں میں اسکی ماں بھی شامل تھی۔جسکا ہر دن اپنے شوہر کے لیے ایک جھوٹ تھا کہ وہ رانی کو اپنے ساتھ لے کر جاتی ہے۔
اسکا باپ شاید اسکی ایک دن کی چھٹی برداشت کر لیتا لیکن رانی کا پڑھنا وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اور اسکی بہت سی وجوہات تھیں۔رانی کی ماں رانی کی حمایت کر سکتی تھی لیکن وہ چاہتی تھی جتنا عرصہ کسی بدمزگی کے بغیر گزر جائے، اچھا ہے۔اپنی ماں کی مجبوری رانی بھی جانتی تھی لہذا اس نے بھی کبھی باپ کو اپنی پڑھائی سے آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی اسکے بر عکس اسکا ہر دن اسے اسکے عزم میں پختہ کر ہا تھا۔
”پڑھنا ہے، اور پڑھ کے گھر بنانا ہے۔“یہ وہ خواب تھا جو وہ روز دیکھتی تھی اور شاید دیکھتی ہی رہتی جو اس دن اردو کی کتاب میں ”میرا گھر“
نہ پڑھ رہی ہوتی۔سبق پڑھتے ہوئے گھر بنانے کی آرزو ایک مرتبہ پھر پوری شدت سے جاگی۔
”میں پڑھ لکھ کر اپنا گھر بناؤں گی“اس نے پڑھتے پڑھتے مہربان استاد سے کہا۔
”ٹھیک ہے اور پھر میں تمہارے گھر کا نقشہ بناؤں گا“مہربان استا د نے شفیق سی شرارت سے کہا۔
No comments:
Post a Comment
Add your Comment