میری سرشت میں ہے خطا
پانچویں قسط
رانی بھی ماں کو رکتا دیکھ کر رک گئی۔
”کیوں پوچھ رہی ہے؟“اسکی ماں نے سوال کیا۔اسکی نگاہین ابھی بھی رانی کے چہرے پہ تھیں۔یوں جیسے اسکے چہرے سے سارا مضمون پڑھ لینا چاہتی ہوں۔
”یونہی،لوگوں سے چیزیں لینا اچھی بات ہے کیا؟“اس نے ماں سے ایک دفعہ پھر اپنا پرانا سوال نئے انداز میں پوچھا۔
”رانی ضرورت کی چیزیں ہی ہوتی ہیں،ورنہ تو محنت کر کے روزی کماتے ہین ہم“اسکی ماں نے کہا تھا۔رانی خاموش ہو گئی۔اسے صحیح،غلط کا فرق اسکے مہربان استاد پڑھا سکتے تھے،اسکی ماں نہیں۔یہ اسکا خیال تھا۔اسکا خیال غلط تھا۔کتابوں سے کچھ نا سیکھ سکھنے کے باوجود اسکی ماں نے دنیا سے بہت کچھ سیکھا تھا۔اور بہت کچھ سیکھنے کے علاوہ اسکے خمیر میں وہی اچھا اور صحیح کرنے کی صفات تھیں جو رانی کو منتقل ہوئی تھیں۔
”رانی اگر کوئی چیز اپنی ضرورت کی ہو تو لینے میں شرم کیسی؟دینے والے نے تو دینی ہے،تجھے نا سہی کسی اور کو سہی۔اگر تیرے لیے چیز سب سے ضروری ہے تو تو تجھے ملنے چاہیے نا؟“اسکی ماں نے ایک دفعہ پھر اپنا مختصر سا روزانہ کیا جانے والا سفر جاری کرتے ہوئے اس سے بات کی۔
”لیکن اگر کوئی اچھا انسان نہ ہو دینے والا؟اگر وہ پیار سے نا دے تو؟“ رانی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس عورت کے چہرے پہ دیکھے جانے والے تاثرات،اسکی آنکھوں سے جھلکتی ناگواری کو کیا نام دے؟
”پیار سے بھی کوئی چیز دیتا ہے جھلی؟لوگ ہمدردی کرتے ہیں،ترس کھاتے ہیں،اپنی زکوات نکالتے ہیں،صدقہ دیتے ہیں،پیار سے کوئی چیز نہیں دیتا“اسکی ماں نے اسے ہنستے ہوئے کہا۔اسکی ماں کا ہنسنا بھی نیا تھا۔
”چوکیدار کی بیوی تو دیتی ہے پیار سے“رانی نے فوراً تردید کی۔اسکے پاس پیار سے دینے والوں کی فہرست چھوتی نہ تھی۔اماں تیلن۔۔۔اسے پیار سے دعائیں دیتی،مہربان استاد۔۔۔پیار سے علم دیتے،چوکیدار۔۔۔پیار سے پیار دیتا،چوکیدار کی بیوی۔۔۔پیار سے ضرورتیں پوری کرتی،جھگیوں کی لڑکیاں۔۔۔پیار سے آواز یں دیتی۔
No comments:
Post a Comment
Add your Comment