Like us on facebook to avoid missing it
12th august part 10
اور انکی ٹویشن کے بعد جب میں بیگم سراج کے دعوت نامے پہ شام کی چائے کی چسکیاں لیتا ہوا نکے صحن میں چارپائی پہ بیٹھا تھا، مجھے یہ والا حساب برابر کرنے کا موقع مل گیا۔
حساب برابر کرنے کا موقع مل گیا۔
”آنٹی سنا ہے پڑوسیوں کے بیٹے میرے ہی ہم عمر ہیں۔تعارف ہو جاتا تو چلو محلے میں میری بھی جان پہچان ہو جاتی“ میں نے نظروں کی گرفت میں سیڑھیوں پہ بیٹھ کر ڈائجسٹ پڑھتی ہوئی باجی کو لیا۔ میرے جملے پہ باجی نے بے نیازی سے ڈائجسٹ کا صفحہ پلٹا، کھڑی ٹانگ نچلی سیڑھی پہ رکھی، دوسری ٹانگ اوپر کی اور ایک تیکھی نظر مجھ پہ ڈالی۔
میں نے مسکراہٹ روکتے ہوئے توجہ چائے کے کپ کی طرف کی۔
”ارے کہاں۔۔۔“
”اماں۔۔۔“ با جی نے نا صرف آواز دی بلکہ تیزی سے کھڑے ہوتے ہوئے بیگم سراج کے سر پر بھی پہنچ گئی۔
لیکن اماں بھی غالبا محلے میں اپنے نام کی ایک ہی تھیں۔ انہوں نے باجی کو اس مداخلت پہ یک گھوری سے نوازا اور گویا ہوئیں۔
”کہاں تمہاری عمر کے ہیں۔۔۔آج آئے نہیں تھے ٹویشن۔۔۔“
”اماں مرغیاں بول رہی ہیں۔۔۔بلی نا پڑ گئی ہو۔۔۔“ اس دفعہ باجی نے اماں کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا جسکے نتیجے میں اماں، چارپائی اور چائے سب زلزلے کی زد میں تھے۔ یہ ہلنے ہلانے کا مشغلہ بھی خاندانی لگتا تھا۔ مرغیوں کے ذکر نے البتہ اماں کو ضرور متوجہ کر لیا تھا۔
دو منٹ کان لگا کر سننے کے بعد بولیں۔
”مجھے تو نہیں آئی آواز۔۔۔کبھی تو سر پر ڈھول بھی پیٹو تو نہیں اٹھتی اور اب مرغیوں کی آواز بھی اللہ جانے کہاں سے آرہی ہے۔۔۔“
”کہاں سے کیا۔۔۔باہر سے ہی آرہی ہے۔۔۔“ وہ گڑبڑا کر بولی۔ میں نے نگاہ اٹھائی۔۔۔سرخ چہرے کے ساتھ نظر مجھ پہ ہی تھی۔
”تو پھر آنٹی ساتھ والوں کے بیٹے۔۔۔“ میں نے نظروں کا زاویہ بدلے بنا بات وہیں سے بڑھائی۔
”وہ آپکی عمر کے نہیں ہیں۔۔۔“ جواب باجی کی طرف سے آیا۔
”اماں بجلی کا بل بھی زیادہ آئے گا اس مہینے۔۔۔اوپر والا کمرہ کرائے پہ جو دیا ہے۔“ باجی صاحبہ ادھار رکھنے نہیں دینے کی قائل تھیں۔
”کرائے پہ کسکو؟ کب دیا ہے؟۔۔۔لو دیکھو سراج صاحب کا حال۔۔۔گھر میں مہمان ٹھہرا کر اب کمرا کرائے پر دے رہے ہیں۔ سٹھیا گئے ہیں اس عمر میں۔“ بیگم سراج کو اب سراج صاحب کی فکر ہو رہی تھی۔
”پریشان نا ہوں آنٹی۔۔۔ہمدان کوچنگ سینٹر سے بل بھی اتر جائے گا۔“ تسلی انہیں دی تھی لیکن مخاطب باجی تھیں۔ جو اب سر ہلا کر دوبارہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مصروف تھیں یا ظاہر کر رہی تھیں۔
”لو بھلا اب بتاؤ۔۔۔کوئی ضرورت تھی اس کھڑاک کی۔۔۔تم چار دن کے لیے آئے تھے۔۔۔سکون سے کام کرتے بیٹا اور گھر جاتے۔ کوئی بہت ہی اچھی تربیت کی ہے ماں باپ نے جو محلے کے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے تم نے فورا ٹویشن شروع کر دی۔ وہ بھی بغیر فیس کے۔ اللہ تمہارا بھلا کرے۔۔۔“ آنٹی نے فرمایا اور میں نے تسلیم کیا ایک دفعہ پھر۔۔۔یہ باجی میرے لیول سے اوپر کی تھیں۔ مطلب یہ کوچنگ سینٹر کا جرم بھی میرے ہی کھاتے میں ڈالا جا چکا تھا۔
”بس آنٹی۔۔۔رہا نہیں جاتا کسی کو مصیبت میں دیکھ کر۔۔۔“ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ سبروز میاں ہمدان بھائی کا نعرہ لگاتے ہانپتے کانپتے پہنچے۔
”ہمدان بھائی۔۔۔ہمدان بھائی۔۔۔“
”دم تو لو۔۔۔کیا ہوا ہے؟“ جواب انکی اماں نے دیا تھا۔
”باہر جھگڑا ہو گیا ہے۔۔۔ دوسرے محلے کے لڑکوں کا۔۔۔“ اس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا۔ میں کسی جذبے کے تحت تو نہیں لیکن اسکے لہجے کے دباؤ میں تیزی سے کھڑا ہوا۔
”ارے ہمدان بھائی کیا کریں گے۔۔۔میں دیکھتی ہوں۔۔۔“ بیگم سراج نے چپل پیروں میں اڑسی۔ اگلے لمحے وہ میرے اور سبروز کے آگے آگے تھیں لیکن دروازے کے ساتھ پڑی فالتو لکڑیوں میں سے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھانا نا بھولی تھیں۔ میں نے یونہی ایک نگاہ باجی پر ڈالی اور دوسرے لمحے چونک گیا۔
وہ سیڑھیوں کے اوپر بیٹھی نہیں بلکہ پاس کھڑی تھی۔ چہرے پر خوف تھا، ہونٹ کانپ رہے تھے اور ہاتھ مضبوطی سے سیڑھی کے کنارے کو تھامے ہوئے تھے۔
”یہ باجی کو کیا ہوا؟“ میں نے سبروز سے پوچھا۔
اس نے پلٹ کر نگاہ ڈالی۔
”وہ پریشان ہو جاتی ہیں۔۔۔“ اور اس سے پہلے کہ میں کیوں پوچھتا وہ بیگم سراج کے پیچھے دروازے سے باہر تھا اور میں اسکے پیچھے۔
جائے وقوعہ پہ منظر دلچسپ تھا۔ سات آٹھ۔۔۔سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے اب بلا امتیاز بیگم سراج کے ڈنڈوں کا شکار ہو رہے تھے۔
”کتنی بار روکا ہے۔۔۔نا تم لوگوں کو اتنا جوش ہے تو کام دھندا کرو کوئی۔۔۔“ ڈنڈا۔۔۔
”ماں باپ کا بھی بھلا ہو۔۔۔کوئی ہنر بھی سیکھو۔۔۔“ ڈنڈا۔۔۔
”نا عقل نا مت۔۔۔بس جوش ہی جوش ہے۔۔۔“ ڈنڈا۔۔۔
”محلہ ہے یا اکھاڑا ہے۔۔۔“ڈنڈا۔۔۔
میں نے آگے بڑھ کر ڈنڈ ا پکڑا اور اس کوشش میں ایک وصول بھی کیا۔
”آج سبق سکھانے دو انہیں۔۔۔“ وہ جوش سے کہتی ہاتھ چھڑانے لگیں۔ جبکہ لڑکے موقع سے فائدہ اٹھا کر بھاگ رہے تھے۔
”پلیز آنٹی۔۔۔بچے ہیں۔۔۔جانے دیں۔۔۔“ میں نے کہتے ہوئے دوبارہ ڈنڈا تھاما۔ ڈنڈا تو میرے ہاتھ آگیا جبکہ بیگم سراج اب ہانپ رہی تھیں۔
سبروز نے انکا ہاتھ تھاما۔
”آجائیں اماں۔۔۔باجی اکیلی ہیں گھر۔۔۔“ اور اس جملے نے جیسے ٹھنڈا پانی ڈالا تھا اماں پر۔۔۔وہ جتنی تیزی سے آئیں تھیں اب اس
سے کہیں زیادہ رفتار سے واپس جارہی تھیں۔ اور میں ڈنڈا ہاتھ میں لیے گلی کے نکڑ پر کھڑا ایک ایک شخص کے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔ لڑائی یقینا زیادہ طویل نا تھی یہی وجہ تھی کہ محلے دار لڑائی کے دوران نا پہنچ سکے۔ اگلا آدھا گھنٹا میں نے انہیں وہ ساری کہانی سنائی جو میں جانتا بھی نا تھا۔ زیادہ محنت نا کرنا پڑی البتہ۔
”وہی شمیم حلوائی کا بیٹا تھا ان میں۔۔۔ہے نا ہمدان میاں۔۔۔“ میرے دائیں کندھے پہ دھموکا آیا۔
”اچھا چاروں دوست تھے۔۔۔ڈنڈا بھی وہی لائے تھے۔۔۔“ دوسرا کندھا جو پہلے آنٹی جی کا ڈنڈا کھا چکا تھا نشانہ بنا۔
”وقت پہ پہنچ گئے ہمدان میاں۔۔۔“
”اپنے لڑکوں کو بھی بچایا۔۔۔“
”بہت ہی نیک شخص ہو بیٹا۔۔۔کون پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑاتا ہے۔۔۔“
”بس اللہ ان لڑکوں کو ہدایت دے۔۔۔ آج تو ہمدان میاں نے بروقت بچا لیا۔۔۔“
”بس اللہ دوبارہ وہ دن نا دکھائے۔۔۔“
”بیٹا سنبھل کے رہنا۔۔۔چند دن کے لیے آئے ہو۔۔۔یہ لونڈے بالے تو لڑتے رہتے ہیں۔“
”ہمدان بیٹے نے اکیلے چاروں کو بھگایا۔۔۔“
غرض مجھے صرف گردن ہلانی تھی۔ باقی کی کہانی وہاں تیار تھی۔ آدھے گھنٹے کی طویل میٹینگ کے بعد بالآخر مجھے سراج صاحب کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ وہ خلاف معمول خاموش تھے۔ انکے ساتھ گھر پہنچا تو وہی سناٹا گھر میں بھی طاری تھا جو انکے چہرے پہ تھا۔ نا باجی دکھائی دیں، نا بیگم سراج اور نہ سلو یا سبروز۔
سراج صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے میں چند لمحے صحن میں کھڑا رہا پھر پیلے بلب کی روشنی میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگیا جہاں نیا نکور انرجی سیور میرے لیے لگایا گیا تھا۔ میرا دل بے اختیار انکی مہمان داری کا معترف ہوا۔ باجی صاحبہ جیسی بھی تھیں۔۔۔سراج صاحب اور بیگم سراج کھلے دل کے تھے۔
باجی کی سوچ کے ساتھ ہی چھم سے تصور میں لرزتے ہونٹ اور خوفزدہ آنکھیں آگئیں۔ میں نے چارپائی پہ لیٹتے ہوئے آنکھیں موندیں۔
”کچھ تو تھا جسکی پردہ داری تھی۔۔۔۔“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”28th july part 1.2.3,4, 5,6,7,8, 9
یہ گلیاں یہ چوبارے
میں چور نہیں ہوں۔۔۔!!اپنا کالر چھڑواتے ہوئے میں نے کہنا چاہا۔مگر شائد بابا جی نے صرف میرا کالر چھڑوانا ہی دیکھا تھا۔فوری طور پر مجھے دھکا دیا۔میرے ہاتھ سے بیگ چھوٹ کر انہی کے دروازے کے اندر کی طرف گر پڑا۔اور میں لڑکھڑا کے زمین بوس۔لیکن یہ مصیبت کا اختتام نہیں تھا۔با با جی اگلے لمحے مجھ پر سوار تھے۔میں نے ساری کوششیں عبث جان کر اب انتظار کرنا شروع کر دیا کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ انکی چور،چور کی چینخ و پکار کا کہیں سے کوئی جواب نہیں آنا۔لیکن تب میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے ایک ایک کر کے سارے سوئے ہوئے،بہرے محلے والوں کو اپنے ارد گرد بابا جی کی دہلیز پہ دائیرہ بناتے دیکھا۔اگلے چند ہی لمحوں میں وہاں اچھا خاصا جمگھٹا لگ چکا تھا اور نہ صرف یہ بلکہ ہر ایک حسب اسطاعت چور کا نعرہ بلند کرنے میں مصروف تھا۔وہ موٹی خاتون جنکا دروازہ میں نے تقریبا بیس منٹ پیٹا تھا۔انکے آگے والے گھر سے ایک لمبا اور پتلا آدمی،جسکی ڈور بیل کے بارے میں مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ میوزک سسٹم کے طور پہ استعمال ہوتی ہے۔وہ سارے محلے والے جو میرے پچھلے آدھے گھنٹے کی کوششوں کو اپنے مثالی بہرے پن سے ناکام بنا چکے تھے اب انتہائی چاک و چوبند میرے ارد گرد کھڑے چور چور چلا کر مجھے بہرہ بنانے پر تلے تھے اور ایک بابا جی تھے جو میرے اوپر سے اٹھنے پر تیار نہیں تھے۔خدا گواہ ہے کہ وہ اٹھ بھی جاتے تو بھی میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا لیکن اب انہیں کون سمجھاتا۔تبھی ایک باریک سی منحنی سی آواز سنائی دی۔ابا جی۔۔۔۔ابا جی۔۔۔۔۔۔!!اسکے ساتھ ہی دو جوتے میرے منہ سے بمشکل چار پانچ قدم دور آ رکے۔لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا۔چور چور کا نعرہ ویسے ہی زور و شور سے لگایا جا رہا تھا جہیسے بہت عرصے کے بعد کسی چور کا دیدار ہو اور اس دیدار سے کوئی بھی محروم نہ رہ جائے۔ابا جی۔۔۔!! اس باریک سی آواز والے لڑکے نے شاید اس دفعہ ابا جی کو کندھے سے بھی ہلایا تھا کہ میرا سارا وجود زلزلے کی ضد مین تھا۔
ہاں کیا ہے۔۔۔؟ابا جی نے پھولی سانسوں کے ساتھ پوچھا۔انکے خاموش ہونے کی دیر تھے کہ میرے ارد گرد کھڑے انکے حواری بھی خاموشی سے منتظرہو گئے کہ وہ جلدی سے دوبارہ چور چور کا نعرہ بلند کریں اور پھر ایک اور کورس ہو۔
امی کہ رہی ہیں ہلدی کے لیے پیسے دے دیں اور ٹیلی فون کا بل بھی آگیا ہے،چار ہزار روپے ہے۔کل آخری تاریخ ہے۔اور بڑے کمرے کا بلب بھی فیوز ہو گیا ہے۔وہ بھی لانا ہے۔اور ہاں میری فیس بھی۔آخر میں دانت نکوستے ہوئے کہا گیا۔میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔کہ اسی لڑکے سے میں نے نواز صاحب کی چابی مانگی تھی اور پھر دس منٹ کے بعد ذرا سا اچک کر دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ آیا وہ آ رہا ہے یا نہیں۔اور اسی اثناو مین پیچھے سے یہ بابا جی آ پہنچے۔مجھے چور تو بنایا ہی،ساتھ ساتھ سارے محلے کو بھی بلا لیا۔
میں اندر آ کے پیسے دیتا ہوں۔پہلے اس چور سے نپٹ لوں۔کہنے کے ساتھ ہی انہوں نے چور چور کہنے کے لیے گہرا سانس اندر کھینچا۔
یہ چور نہیں ہے۔اس لڑکے نے اتفاقا میرا چہرہ دیکھا اور میں نے شکر ادا کیا۔
ہیں۔۔۔۔؟اندر کھینچے گئے سانس کی وجہ سے آواز عجیب و غریب ہوق گئی تھی۔
یہ چور نہیں ہیں۔نواز انکل کے بیٹے ہیں۔گھر کی چابی مانگ رہے تھے۔
اوہ۔۔۔اوہ۔میں سمجھا چور ہے کوئے۔معاٖٖ ف کرنا بیٹا۔کبھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے۔ویسے بھی آجکل چوریاں کافی بڑھ گئی ہیں تو ہر وقت چوروں کا ہی خدشہ رہتا ہپے۔وہ میرے اوپر بیٹھے بیٹھے گویا تھے۔
آپ پلیز ذرا سا اٹھنے دیں گے مجھے؟میں نے بمشکل سانس لیتے ہوئے کہا۔
اہ ہاں ہاں۔۔۔۔اپنے بھاری جثے کے ساتھ اٹھتے ہوئے بھی میری کمر پہ پاؤں رکھنا نہ بھولے۔میں ایک دفعہ پھر درد کے مارے بلبلا اٹھا۔میری اچھی خاصی اتھلیٹک کمر کسی زخمی پھوٹے کی دکھ رہی تھی۔سیدھا ہوتے ہوئے میں وہیں دہلیز سے ٹیک لے کر بیٹھ گیا۔لیکن یہ بیٹھنا بھی ارد گرد کھڑے لوگوں کو ہضم نہیں ہو
ارے بیٹھ کیوں گئے ہو یار۔۔؟اٹھ کے گلے ملو۔اپنے نواز صاحب کے بیٹے ہو تو اپنے بچے ہی ہوئے۔ایک صاحب نے مجھے بازو سے کھینچ کے کھڑا کیا اور پھر زبردستی میرے گلے کا ہار بھی بن گئے۔صورتحال کو دیکھتے ہوے مین نے اپنے آپ کو مکمل طور پہ انکے رحمو کرم پہ چھوڑ دیا اور آنکھیں موند لیں۔ایک بازو سے دوسرے،دوسرے سے تیسرے،تیسرے سے چوتھے۔نہ جانے کن صاحب کو رحم آیا کہ میں اب کسی کی بیٹک میں تھا۔اور میرے سامنے گلاس میں ٹھنڈی ٹھار پیپسی موجود تھی۔گلاس کے ارد گرد ٹھنڈے پانی کے قطروں سے بنے نقش و نگار نے میری سوئی ہوئی پیاس کو جگا دیا۔
میں نے ایک سانس میں گلاس خالی کیا اور آ خر میں بمشکل دو سانس مزید لیے۔
شکریہ۔گلاس میز پہ رکھتے ہوئے میں نے کہا اور حقیقتاً میرا دل کر رہا تھا یہ شکریہ کہنے کو لیکن ان پیپسی والے صاحب کو نہیں۔اپنی والدہ محترمہ کو۔
پاکستان جانا ہے تو اپنے گھر میں ٹھہرنا۔کسی ہوٹل مت رکنا۔
ارے ٹھہرو گے تو لوگوں کو جانو گے۔پتا نہیں دس سال میں کتنا بدل گیا ہو گا۔پرانے محلہ دار بھی ہوں گے یا نہیں؟
ارے تم نے ہوٹل میں ایسی کونسی خفیہ میٹنگز کرنی ہیں یا رضیہ بٹ ہو کہ تمہارے کام میں خلل پڑے گا۔
بس بحث برائے بحث کیے جانا۔اپنی مٹی کی تو تم لوگوں کو قدر ہی نہیں ہے۔
ہوٹل میں وہ بات کہاں جو گھروں میں ہوتی ہے۔
پھر پرانے محلے دار ہیں۔ہو سکتا ہے کل کلاں کو تمہاری شادی بھی وہیں۔۔۔۔
ارے ایسی اولاد اللہ کسی کو نہ دے۔نا فرمانی کی بھی حد ہوتی ہے۔ اور پھر آنسو۔اور لڑکیاں تو شاید ماؤں کی بلیک میلنگ کا کوئی سد باب کر لیں،ہم لڑکوں کو تو مانتے ہی بنتی ہے۔اور اب صورتحال یہ تھی کہ ائیر پورٹ سے تین گھنٹے ڈائیو کے اور پھر مزید تیس منٹ یہاں پہنچنے کے اور اس کے بعد ٓدھے گھنٹے کی کوششیں محلے داروں کو جگانے کی۔اگر مجھے پتا ہوتا کہ لفظ چور اتنا کارآمد ہے تو ہو سکتا تھا کہ میں اپنے ماتھے پر
چور لکھ کر ہی آتا۔
”اچھا تو اپنے نواز صاحب ٹھیک ہیں؟“
غالبا بیٹھک والے صاحب نے پوچھا۔
”الحمد’للہ“۔۔میں نے سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
”وہ انکل چابی۔۔۔مل جاتی گھر کی تو۔۔۔“ میں نے سوالیہ نظروں سے چہروں کو دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے ابھی تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکا تھا کہ کس گھر سے کون نکلا یا پھر یہ کہ اس بیٹھک کے مالک کتنے تھے؟ ہر کوئی اپنی آسانی اور سہولت کے پیش نظر جگہ سنبھالے ٹکا تھا۔
”چابی تو۔۔۔۔بیٹا ایسا ہے کہ۔۔۔“ ایک صاحب جو صوفے کے آخری سرے پہ ٹکے تھے گویا ہوئے۔
”ہمارے باقر صاحب ہوتے تھے۔۔۔۔اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔“۔۔۔
”آمین“۔ حاضرین نے مل کر جواب دیا۔
”تو کیا چابی باقر صاحب ساتھ ہی لے گئے؟“ میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔ پچھلے چند گھنٹوں کی خواری کے بعد مشکل ہی تھا کہ میں اپنا نام بھی یاد رکھ پاتا کجا کہ چابی اور باقر صاحب کا تعلق سمجھ پاتا۔
”ارے نہیں۔۔۔وہ تو اپنے آبائی شہر میں دفن ہوئے۔ سندھ میں ہے انکا شہر۔۔۔“
”گوٹھ۔۔۔گوٹھ۔۔۔“ کسی نے لقمہ دیا۔
”بھلا سا نام تھا انکے گوٹھ کا۔“ اب جملہ حاضرین اس گوٹھ کا نام یاد کرنے میں مشغول ہو گئے۔۔۔اور میں زندگی میں بچایا گیا وہ سارا صبر جسکو استعمال نہ کرنے پہ میری والدہ کو شکایات رہتی تھیں۔۔۔وہاں اس بیٹھک میں بیٹھا استعمال کر رہا تھا۔۔۔۔ ان چہروں سے مجھے یہ تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ چابی آج کی تاریخ میں نہیں ملے گی لہذا دس پندرہ منٹ کی لا یعنی گفتگو کے بعد میں نے قصہ تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔
”انکل پھر میں چلتا ہوں کسی ہوٹل میں سٹے کرتا ہوں۔“ کہنے کے ساتھ ہی میں کھڑا ہو گیا۔
”ارے نواز صاحب کا بیٹا ہوٹل میں ٹھہرے کتنی غلط بات ہے۔۔۔“ ایک صاحب بولے۔
”بیٹا معاف کرنا لیکن گھر تو میں نے باقر صاحب کی بیوہ کو دیا ہے چند ہفتے ٹھہرنے کے لیے۔۔۔تم برا نہ مناؤ تو میرے گھر ٹھہر جاؤ۔ بڑا اور کشادہ تو نہین لیکن ہوٹل سے تو بہتر ہی ہوگا“
”بے شک بے شک“ کورس میں تائید ہوئی۔
”جو بات گھر کی ہے وہ ہوٹل کی کہاں۔۔۔۔“
”نہیں انکل میں گھر والوں کو تکلیف نہیں دینا چاہتا۔“میں نے انکار کیا۔ اس سب کے بعد کسی اور ایڈوینچر کی طاقت نہیں تھی مجھ میں۔لیکن یہاں بھی میں اتنا ہی بے بس ثابت ہوا جتنا پچھلے ایک ڈیڑھ گھنٹے سے ہو رہا تھا۔
بابا جی نے نہ صرف مجھے اپنے گھر کی چھت پہ موجود کمرے میں لوہے کی چارپائی پہ نیا کھیس اور نئی شنیل کی چادر کے ساتھ ٹھہرا دیا تھا۔ بلکہ
میں انکے بیٹوں کا تعارف بھی حاصل کر چکا تھا۔
وہ فیس والا بیٹا آٹھویں میں تھا۔ سبروز نام تھا اسکا۔
اس سے چھوٹا دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔۔۔سلیم عرف سلو۔ جسکی باریک باریک سارس جیسی ٹانگیں نیکر سے نکل رہی تھیں لیکن اس سے زیادہ عجیب و غریب اسکے دیکھنے کا انداز تھا۔ اور پھر کمرے کا پنکھا۔۔۔جو آوازیں زیادہ اور ہوا کم دے رہا تھا۔
میں نے بابا جی کی بہت منتیں کیں کہ مجھے جانے دیں بس ہاتھ جوڑنے کی کسر رہ گئی تھی لیکن انکا ایک ہی اصرار تھا۔
بہروز صاحب کا بیٹا اور ہوٹل میں۔۔۔ناممکن۔
میری بے زاری اور ناراضگی عروج پہ تھی۔ والدہ محترمہ کے وہ سارے دلائل جنہیں سن کر مجھے لگا تھا کہ شاید یہ ایک اچھا فیصلہ ہو، کہ میری سوچ کے کچھ دھارے شاید بدل جائیں لیکن اب ایسا ناممکن نظر آتا تھا۔
میں کوئی مجبور نہیں تھا کسی وقت بھی بیگز اٹھا کر ہوٹل شفت ہو سکتا تھا لیکن اب اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی ضد مجھے روکے ہوئی تھی، اور پھر والدہ صاحبہ کے میرے مستقبل کے حوالے سے خواب۔ انکی پاکستان سے بہو لانے کی خواہش، وہ بھی ایسے کسی محلے سے۔۔۔میں چاہتا تھا کہ ایک ہی دفعہ یہ قصہ پوری طرح نمٹا دوں۔
کہ دوبارہ کبھی ان گلیوں میں آمد کا چانس نہ ہو۔۔
سراج صاحب اب بس بھی کیجیے۔۔۔آجائیے۔۔۔ناگہانی مدد کی طرح یہ کڑک دار آواز بابا جی کی زوجہ محترمہ کی تھی۔۔۔اور سراج صاحب جو مجھے اگلے، پچھلے اور نئے سارے محلے داروں کے تعارف دے چکے تھے۔۔۔(سوائے اپنے تعارف کے) اس آواز کو سنتے ہی کسی شرلی کی طرح کمرے سے نکلے۔
میں نے شرلی کو بھی اتنا ناک کی سیدھ میں اڑتا نہیں دیکھا۔ بہرحال انکے جانے کے بعد میں نے سلو کو جی بھر دونوں آنکھوں سے گھورا کہ بابا جی کی موجودگی کے باعث گھورنے کا یہ عمل یک طرفہ تھا اور صرف میں ہی فیض یاب ہو رہا تھا۔ میرے گھورنے سے ہار مان کر سلو صاحب بھی باہر سدھارے۔ میں نے چارپائی پر گر کر گہرے سانس لیے اور اپنے شل ہوتے جسم میں ۲۰۶ ہڈیوں کی گنتی کر کے اپنے سالم ہونے کو یقینی بنایا۔ پنکھے کی گڑ گڑ بھی مجھے اس میٹھی نیند میں جانے سے نہ روک سکی۔۔۔ جسکا اختتام قطعی میٹھا نہ تھا۔
زلزلے کی شدت سے گھبرا کر میں نے فوری طور پر چارپائی سے کھڑکی اور پھر کھڑکی سے باہر جمپ کرنے ک سوچا۔ لیکن ذہن کے کسی کونے میں خدانخواستہ بازو یا ٹانگ ٹوٹ جانے کا اندیشہ بہرحال موجود تھا۔ میں نے تیزی سے اٹھ کر سلیپر پاؤں میں اڑائے اور اتنی ہی تیزی سے زلزلہ بھی تھم گیا۔ سلو صاحب اب اپنی گول گول آنکھوں سے ایک دفعہ پھر گھورنے کا عمل جاری کر چکے تھے۔
”کیا ہے؟“ اپنے بے تحاشا غصے کو بڑی مشکل سے کنٹرول کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔
”آپکا نام۔۔۔؟“ سلو صاحب نے اتنی ہی معصومیت سے پوچھا اور میرا جی چاہا کہ اس دفعہ تو سچ مچ جمپ کر ہی دوں۔
اپنے پیچھے چارپائی پہ گرتے ہوئے میں نے اسے دیکھا۔
”ہمدان“۔۔۔
”بس یا اور کچھ۔۔۔؟“ وہ سر ہلاتا پلٹنے لگا تھا جب میں نے اسے روکا۔ اب اگر میری نیند،آرام، سکون اور چین خراب ہو ہی گئے تھے تو کیوں نا سارا انٹرویو ایک ہی دفعہ دے دیتا۔
”بس۔۔۔باجی نے کہا تھا جاؤ نام پوچھ کر آؤ“ اس نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور میں کراہ کر رہ گیا۔
”سنو تمہاری باجی کا کیا نام ہے‘؟‘ اس سے پہلے کہ وہ نکل جاتا میں نے اصل مجرم کی شناخت ضروری سمجھی۔
”باجی“ اس نے کہا اور میں عش عش کر اٹھا۔ یعنی یہاں ایک باجی بھی تھیں جو باجی ہی تھیں۔ باجیوں سے مجھے ہمیشہ سے ہی تحفظات رہے ہیں۔
باجیاں بے چاری ”باجی“ بننے کے چکر میں اور بہت سی نازک باتیں بھول جاتی ہیں۔ انکے تیور۔۔۔عموما خونخوار جبکہ ارادے خطرناک ہوتے ہیں۔ جو یہ چاہتی ہیں وہ حاصل کر لیتی ہیں اور آپکو انکے اصل مقصد تک رسائی آخری لمحے تک نہیں ہو پاتی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ باجیاں بہت ہی کنفیوزڈ ہوتی ہیں۔۔۔وہ خود بھی نہیں جانتی ہیں کہ انہیں باجی بننا ہے یا اپنے اندرکے عادی مجرم کو موقع فراہم کرنا ہے۔ اس چکر میں وہ چور سپاہی کا کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔۔۔اور سفر ہوتے ہیں انکے اردگرد کے لوگ۔۔۔۔جیسا کہ چار عدد باجیوں کا بھائی میں۔ میری سگی باجیاں تو نہیں تھیں لیکن میری والدہ کی ہمشیرہ کی بیٹیاں ہونے کے باعث وہ ساری زندگی زبردستی میری باجیاں ہی بنی رہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ انکی شادیاں ہو گئیں اور اب وہ یہ شوق پنے میاں پر پورا کرتی ہیں۔ انکے بارے میں میری پالیسی ہمیشہ اوائیڈینس کی رہی ہے۔ رستے میں ہوں تو رستہ بدل لو۔۔۔گھر پر ملیں تو شناخت بدل لو۔۔۔ اور اب یہاں بھی ایک باجی۔۔۔۔
میں نا ہی رستہ بدل سکتا تھا۔۔۔اور نا ہی شناخٹ۔۔۔۔سوچا باجی ہی بدل ڈالوں لیکن پھر اوائیڈینس والے پرنسپل کا ستیا ناس ہو جاتا۔
پتا چلتا باجی صاحبہ مجھے ہی بدل ڈالتیں۔۔۔
ایک ہی حل تھا۔۔۔میں پیشہ بدل لیتا۔۔۔۔امپورٹ ایکسپورٹ سے آرٹس اینڈ تھیٹر جوائین کرلیتا۔
میں نے گہرا سانس لے کر وقت دیکھا۔شام کے چھہ بجنے والے تھے۔ بھوک کا احساس شدت سے جاگا۔ باجی کے ڈر نے بھوک کچھ اور بڑھا دی تھی۔
میں نے وائی فائی کے سگنل تلاش کرنا چاہے لیکن سگنل ندارد۔۔۔غالبا چھت پر نہیں تھے۔۔۔ میں نے اپنی ڈیوائس نکالی۔۔۔والدہ محترمہ کو تسلیاں دلاسے دیے۔ اپنے ساتھ کیا گیا سلوک میں انہیں ضرور بتاتا لیکن ویڈیو گرافک ثبوتوں کے ساتھ۔۔۔سامنے بیٹھ کر۔۔۔ فون پر کہیں رضیہ سلطانہ کی جانشین بنی میری والدہ یہاں آگئیں۔۔۔تو پھر اللہ ہی حافظ تھا۔
والدہ صاحبہ سے بات کر کے ہوم ڈیلیوری سروس کی تلاش شروع کی لیکن علم ہوا۔۔۔یہ وہ محلہ ہے جو ذرا پاسے پڑتا ہے۔ یہاں آنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہوتے۔ جو سب سے قریب آنے پر رضامند بھی ہوا تو اسکا کہنا تھا کہ آکے سٹاپ سے رسیو کریں جو کہ نہ جانے کہاں تھا۔
میں نے تھک ہار کر باجی کے متھے لگنے کا فیصلہ کیا۔ دل میں امید تھی کہ شاید یہ باجی اس گھر کی پرسنل نا ہوں بلکہ آس پڑوس کی ہوں۔
ڈرتے ڈرتے سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھا۔
”خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا۔۔۔ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گی۔۔۔“ میں نے ہکا بکا ہو کر نیچے نگاہ کی۔ سیڑہیوں کے اختتام پہ سلو صاحب اور انکے پیچھے کمر پر ہاتھ رکھے باجی تھیں۔
سلو کے تاثرات اور چال میں ذرا تبدیلی نہ آئی ت مجھے شک ہونے لگا کہ یہ میری ٹانگوں کی بات ہی تھی۔ میں نے احتاطااسکا جائیزہ لیا۔
دھان پان سے وجود کے ساتھ، ناک پر چشمہ۔۔۔بال کیچر میں پھنسے سر کے ارد گرد سے نکل رہے تھے۔ دوپٹہ کس کر کمر پر باندھا گیا تھا جو اب مجھے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے کھول کر لیا جا رہا تھا۔ میں نے گڑبڑا کر سلو کی طرف نگاہ کی۔ وہ مگن انداز میں مجھے دیکھتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
”سلو کے بچے میں نے کہا رک جاؤ۔۔۔“ چیخ کر سلو کے بچوں کو عالم ارواح سے آواز دی گئی۔
ؔؔ”اسے روکیں ذرا۔۔۔“مخاطب میں تھا۔ میں نے باجی سے پنگا نا لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے، اپنے مستقبل کے بچوں کی خاطر سلو کے رستے کی دیوار بننے کا فیصلہ کیا اور اسکے آگے ٹانگیں پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔
سلو نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے سائیڈ پر کرنا چاہا لیکن تب تک باجی نے اسے پیچھ سے آکر کالر سے پکڑ لیا اور کس کر دو دھموکے کمر پر لگائے۔
”کب سے ٹائم ہوچکا ہے۔ قاری صاحب بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ تمہاری اٹھکیلیاں ہی ختم نہیں ہو رہی ہیں“ وہ کہتی سلو کو باقی ماندہ سیڑھیوں ے اتارنے لگی۔
”اور آپ“ پلٹ کر تیز نگاہ مجھ پر ڈالی گئی۔ ”اب اٹھ ہی گئے ہیں تو کھانا کھا لیجیے گا۔ دوپہر سے بچا بچا کر رات ہو گئی ہے۔۔۔“ باقی کا جملہ بڑ بڑاہٹ میں کہا گیا جو میری تیز حسیات نے فورا سن لیا۔ کہا نا باجیوں کے معاملے میں، میں ہمیشہ ہائی الرٹ ہوتا ہوں۔
”میں نیچے آ جاؤں“ میں نے احتیاطا مناسب ترین جملے کا انتخاب کیا۔
”اب ظاہر سی بات ہے۔۔۔نوکروں کی فوج ہوتی تو دوپہر سے جگا کر کھلا نہ دیتی۔۔۔۔“ مزاج سوا نیزے پر تھا۔
میں نے یوں گردن ہلائی جیسے نویں، دسویں کے ریاضی کے مسئلے اسی نے تو سمجھائے تھے مجھے بھی اور میرے ابا کو بھی۔ اسکے پیچھے سیڑھیاں اتر کر میں چھوٹے سے صحن کے بیچوں بیچ کھڑا تھا جبکہ وہ اب صبح والی بیٹھک میں سلو صاحب کو دھکا دے رہی تھی۔ اسے دھکا دے کر اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔
دو منٹ کمر پر ہاتھ رکھے گھورتی رہی۔۔۔میں نے حتی الامکان بے ضرر تاثرات رکھے جبکہ دل میں تو۔۔۔سونے کے علاوہ کوئی دوسری غلطی ڈھونڈ رہا تھا۔
”ابا مسجد گئے ہیں۔۔۔امی پڑوس۔۔۔وہ برآمدے میں پڑا سٹول اٹھا کر چارپائی کے ساتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔۔۔میں کھانا لاتی ہوں۔۔۔“ وہ کہ کر غڑاپ سے بیٹھک کے مقابل بنے دروازے مین غائب ہو گئی۔ میں نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے سٹول چارپائی چارپائی کے پاس رکھا اور ٹک گیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے ایک دم تیز شورو غل کی آواز سنائی دی۔ میں نے گھبرا کر باجی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔۔۔
ر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ باہر سے تیز شور کی آواز سنائی دی یوں لگتا تھا۔میں نے باجی کی تلاش نگاہ دوڑائی لیکن باجی کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ یقینا پائے گلا رہی تھیں یا کھانا پکا رہی تھیں۔ میں نے اپنا سیل اٹھایا، بیٹری کی تسلی کی اور باہر کا رخ کیا۔ مجھے ایک نادر موقع مل رہا تھا۔۔۔محلے کی حقیقی تصویر ریکارڈ کرنے کا۔اور میرا اس موقع پر چوکا لگانے کا ارادہ تھا۔ چو کھٹ کے باہر ہی سبروز صاحب کسی کالی بلی کی طرح رستہ روکے گٹر کے ڈھکن پہ بیٹھے پائے گئے۔ جو بھی تھا۔۔۔وہ میرا مددگار تھا۔ اسی نے مجھے محلے کے شرارتی بزرگوں سے صبح بچایا تھا۔ اسکے لیے میرے جذبات فی الحال نرم گرم ہی تھے۔
”کیا ہو رہا ہے؟“ میں نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور سوال کیا۔
موٹی آنٹی کالی آنٹی کے ساتھ جھگڑ رہی ہیں۔ اس نے تسلی سے بتایا۔میں نے کیم آن کرتے ہوئے غیر محسوس انداز میں ویڈیو بنانی شروع کردی۔
”نہ، تو تجھے کس نے کہا تھا۔۔۔ایدھی کی جانشین بننے کو۔ اپنے گھر تک محدود رہا کر تو۔۔۔“
”بس بھی کردے رجو بیگم۔۔۔پورا مھلہ جانتا ہے کہ سالن تو بنا تک نہین تیرے گھر آج تک۔ ارے میرے گھر سے سالن نہ جائے تو۔۔۔۔“ آگے قابل سنسر مواد تھا۔ میں نے پریشان نظروں سے سبروزکو دیکھا۔
”جھگڑا شروع کہاں سے ہوا تھا؟“
”موٹی آنٹی کے بیٹے کو الرجی ہو گئی ہے اور وہ کالی آنٹی کے سالن کو الزام دے رہی ہیں“
”الرجی کیسے ہوئی؟“ میں نے حیرانی ے سوال کیا۔
”کیریاں کھانے سے نکسیر پھوٹی ہے۔۔۔سکول سے اتنی کیریاں کھا کر آتا ہے۔۔۔“ سبروزمیاں نے ہاتھ پھیلا کر مجھے دوبارہ اندر دھکا دیتے ہوئے بتایا۔
ایک تو جب سے آیا تھا دھکے ہی کھا رہا تھا۔
اب وہ خوتین الرجی کے ہر واقعے کا تعلق ایک دوسرے سے جوڑ رہی تھیں۔ میں نے کیم سیدھا کیا۔
”شاباش ہے۔۔۔بجائے اسکے کہ بچے کو اٹھائیں آپ تو خود ہی محظوظ ہو رہے ہیں۔۔۔“ مجھے ایک دم سے باجی کی کڑک آواز سنائی دی۔ میں نے گڑبڑا کر پیچھے دیکھا اور کیم آف کیا۔ ان خاتون سے کچھ بھی بعید تھا۔
”اتنا ہی فارغ وقت ہے دونوں کے پاس تو پڑھنے پڑھانے کا کام کرلیجیے تھوڑا۔ کل سے ٹویشن دیں گے آپ ٹیپو کو اس ٹائم۔۔۔“
”دیکھیے محترمہ۔۔۔“ اسکی فرینکنیس سے گھبرا کر میں نے کہنا چاہا۔ بن بلایا مہمان تھا تو میں، لیکن اس وقت تو حرکتیں اسکی مشکوک تھیں۔ بھلا اتنی سہولت سے کسی کے گلے میں گھنٹی باندھی جاتی ہے کیا؟
”ایک تو آپ کے لیے کھانا گرم کر کر کے مین تھک گئی۔۔۔اوپر سے آپکی تلاش کر کر کے۔ اب آپ کو مہمان بنا ہی لیا ہے ابا حضور نے تو آپ بھی اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے احسان مندی کے تحت انکے نکمے بیٹے کو پڑھا کر صلہ دے دیجیے۔اتنے مینرز تو سکھا کے ہی
بھیجا ہو گا یورپ والوں نے؟“
میں صدمے سے گنگ اسکی چلتی زبان کے جوہر سن اور دیکھ رہا تھا جب اسکی بات ختم ہونے پر پورے محلے میں خاموشی کا احساس ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے گردن گھما کر اپنے پیچھے گلی میں دیکھا۔ چند لمحے پہلے جو عوام آنٹیوں کی جنگ سے محظوظ ہو رہی تھی اب وہ سب میرے جواب کے منتظر مجھ پر نظریں ٹکائے کھڑے تھے۔ موٹی آنٹی اور کالی آنٹی بشمول۔ اور اتنا اندازہ تو مجھے ہو ہی گیا تھا کہ باجی صاحبہ چہیتی ہیں یا یہ کہ محلے والوں سے پنگا۔۔۔کھلم کھلا نہیں لینا۔ میں نے مسکرا کر سب کو دیکھا اور پھر خونخوار نظروں سے باجی کو۔
”جگہ دیں ذرا آپ؟“
”وہ بھی دے دوں گی جواب تو دے دیں آپ پہلے۔۔۔۔“وہ شاید جانتی تھی کہ ہمدان نواز کو گھیرنا اتنا آسان نہین۔ نہ جانے کونسا بدلہ لے رہی تھی۔سارے معاملات وہیں پہ طے کرنے پہ تلی تھی۔
”دیکھتا ہوں۔۔۔“میں نے دانت کچکچائے۔
”دیکھنے والی تو بات ہی نہیں بیٹا۔۔۔“
”کار خیر ہے۔۔۔“
”میرا پنٹو بھی آجائے گا کل شام چھہ بچے سے۔۔۔“
”ہاں تو سلمی بھی ڈھونڈ رہی ہے ٹویشن۔۔۔۔“
اور اگلے پانچ منٹوں کے اندر اندر۔۔۔میں وہاں کھڑا کھڑا ہمدان کوچنگ سنٹر کا مالک بن چکا تھا۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ باجی صاحبہ سب سے ٹائمنگ اور فیس طے کر رہی تھیں۔کار خیر کی۔۔۔
”آپ کھانا کھا لیجیے ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔۔“ اس نے فیس طے کرتے ہوئے مجھے اندر جانے کا رستہ دیتے ہوئے کہا۔
سبروزکو شاید میرے صدمے کا اندازہ تھا۔۔۔تبھی اس نے میرا ہاتھ تھاما اور چارپائی کے پاس لے آیا جہاں میں نے تپائی چھوڑی تھی۔ اب وہاں ٹرے تھی ڈھانپی ہوئی۔۔۔پاس ہی بوتل اور گلاس تھے۔
”کھا لیں ہمدان بھائی۔۔۔“اس نے میرے کندھے پر ہمدردی کا ہاتھ رکھا۔ میں نے غصے سے اس سبو نامی بلا کو دیکھا۔ نہ یہ صاحب گٹر کے ڈھکن پہ بیٹھے پائے جاتے نہ وہ باجی محترمہ مجھے بہانے سے گھیرتیں۔ اب تو مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اس باجی کا تعلق میرے لیول کی اوپر والی باجیوں سے ہے۔ ایسی دیسی باجیوں سے تو کبھی پالا نہیں پڑا تھا جو سننے کا کام کرتی ہی نہ ہوں؟ میری ولائیتی باجیاں تو بوائے فرینڈز کے ہاتھوں ہی پریشان رہتی تھیں۔ میرے ذہن میں نادر خیال آیا۔۔۔
دیسی بدیسی کا فرق پہناوے میں ہو سکتا ہے۔۔۔نیتوں میں نہیں۔ ہو نہ ہو اس باجی کے رویے کے تعلق بھی کسی صنف مخالف کے رویے سے ہی تھا۔ بس اب دریافت کے گھوڑے دوڑانے تھے۔ میں نے گہرا سانس لے کر ٹرے کھولی اور ساتھ ہی ہاتھوں کے طوطے بھی کھولے۔
آج تک زندگی میں۔۔۔آلو کریلے نہین کھائے تھے۔ یہ باجی صاحبہ آج وہ بھی کھلانے والی تھیں۔
کہاں میں آیا تھا۔۔۔بزنس ڈیلینگز کرنے اور کہاں۔۔۔ہر دوسرا کام ممکن لگتا تھا سوائے بزنس ڈیلینگز کے۔ وہ اور مکان کا سودا۔۔۔
اب تو ارادہ پکا تھا۔۔۔ ابا مرحوم کا مکان بیچ کر ہی جانا تھا۔تاکہ اس محلے تو کیا اس شہر کے قریب بھی نہ پھٹکنا پڑے۔ ٹین ایجر تھوڑا ہی تھا کہ اپنے پروجیکٹس چھوڑ چھاڑ ان باجی کے مٹھے لگتا۔۔۔وہ محترمہ تو خیر لگتا تھا بڑی ہی نہیں ہوئی ہیں۔ میں نے آلو کریلے زہر مار کیے۔۔۔
اگلے دن کے لیے ٹائمنگز سیٹ کیں۔۔۔طویل مرحلہ تھا۔ وائی فائی لمیٹڈ اور چھت کے اسی نکڑ پر آتا تھا جہاں سے پردہ پڑتا تھا۔ باجی کی سہیلی کو۔۔۔
”اب آپکو بتا تو دیا ہے لیکن یہ نہ ہو وائی فائی کے بہانے آپ سلمی کو تاڑتے ہی پائے جائیں۔۔۔جوان بھائی ہیں اسکے۔۔۔“ منہ بنا کر پاسورڈ اور نکڑ بتائی گئی اور ساتھ ہی وارننگ بھی دی گئی۔
”میں کل اپنی ڈیوائس خرید لوں گا۔۔۔آج کے لیے چاہیے صرف۔۔۔“ نہ جانے اتنا صبرمیرے اندر کہاں سے آگیا تھا۔
”وہ تو جب آپ لیں گے۔۔۔تب ہی لیں گے“ اس نے مکھی اڑائی۔
یا اللہ۔۔۔اس لڑکی کی زبان ہے یا۔۔۔بندوق کی گولیاں۔
خیر سلمی کے جوان بھائیوں کا عقدہ بھی اگلے دن کھلا۔ جب میں تین بجے تک انجان شہر میں خواری کے بعد گھر پہنچا۔۔۔سوئے ہوئے بابا جی کو آدھا گھنٹہ مشقت کے بعد جگایا۔۔۔اور نہا دھو کر بمشکل کمر سیدھی کر نے لیٹا ہی تھا۔۔۔کہ سبروز، ٹیپو اور دو اور پتلی پتلی ٹانگوں والے بچے ہمدان بھائی السلام علیکم کا نعرہ لگاتے کمرے میں آگئے۔ میں جمائیاں روکتا صورتحال پر غور کر رہا تھا اور وہ ایک عدد چٹائی بھی بچھا چکے تھے اور میرا ٹویشن سینٹر اب رٹے کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ یقین مانیے میں نے ان کے کتابوں کے صفحے تو کیا نام تک نہ پڑھے تھے کہ میں تو ابھی تک خواب میں اماں حضور کو کریلے پکانے سے روک رہا تھا۔
”نام کیا ہیں۔۔۔؟“ میں نے پوچھا۔
”کیا نام ہے بیٹا آپکا“ بلند آواز سے پوچھا۔
”اوئے۔۔۔نام ہے کوئی یا نہیں؟“ اس دفعہ دبکا مار کر بند آواز سے پوچھا۔
”یہ سلمی آپا کے بھائی ہیں۔۔۔“ سبروز نے خاموش کلاس کی طرف دیکھتے ہوئے اطلاع پہنچائی۔
یہاں سبکے تعارف ہی عجیب تھے۔ایک باجی صاحبہ تھیں جنکا نام باجی تھا اور اب دو یہ نمونے جو سلمی آپا کے بھائی تھے۔
”بڑے بھائی بھی ہیں انکے؟“ میں نے سبروز سے ہی پوچھا کہ وہ دونوں تو انتہائی اشتیاق سے میرے منہ سے اردو نکلتی دیکھ رہے تھے۔ اور میں ان چھتانک بھر کے بچوں کے سامنے خود کو احمق سمجھ رہا تھا۔
”نہیں۔۔۔چھوٹے دو ہیں۔۔۔لیکن سکول نہیں جاتے ابھی۔۔۔۔“
تو یہ تھے وہ جوان بھائی جنکی دھمکی ملی تھی۔ بے اختیار میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
next part kb aaye ga.?
ReplyDelete