Search This Blog

Saturday, 21 April 2018

Meri sarisht men hai khata complete novel episode 1

 میری سرشت میں ہے خطا

                   میں خطاؤں کا پتلا ہوں 
                                     میرے ہاتھ پہ میرا نام لکھ دو

اسکا نام رانی تھا۔اور وہ سچ مچ میں رانی تھی۔
اپنے من کی،اپنی ہم عمر لڑکیوں کی اور اپنی ماں کی!
اپنے من کی۔۔۔،
کہ وہ اپنے دل کی ہر بات سنتی تھی۔ہر وہ کام جو اسے کرنا ہوتا  وہ اپنے دل کی مرضی سے کرتی۔پکی آ بادی کے کوڑے کے ڈھیر اسے پسند نہیں تھے،وہ وہاں نہیں جاتی تھی۔جبکہ ہاؤسنگ سکیم کے ہر چھوٹے بڑے کوڑے کے ڈھیر سے وہ واقف تھی۔وہاں اکثر اچھی چیزیں مل جاتی تھیں۔مثلا ٹوٹے بازووں والی گڑیا،ٹوٹی ہوئی پونیاں جنہیں گرہ لگا کر قابل استعمال بنایا جا سکتا تھا،ٹوٹے ہوئے جوتے جن کے اوپر سے تتلیاں بٹن اور دوسری چھوٹی موٹی چیزیں اترجاتی تھیں۔کبھی کبھی ادھ کھائی چاکلیٹ یا  بسکٹ کے خالی ریپر میں ایک آدھ  بسکٹ۔فیشن میگزینز کے صفحے جن پر مختلف خوبصورت لوگوں کی تصاویرہوتی تھیں یا کبھی ایک روپیہ۔۔۔!!
اسے وہ ڈھیر اچھے لگتے تھے  اسی لیے اپنے بھائیوں سے علیحدہ وہ انہی ڈھیروں میں جاتی،لیکن اسکی عجیب عادت تھی۔اپنا سارا دن ان ڈھیروں میں لگانے کے بعدوہ وہاں سے اکٹھی کی گئی چیزیں اپنے پاس نہیں رکھتی تھی۔اپنی تماتر جدتوں کے ساتھ وہ چیزیں اسے اتنی قیمتی نہیں لگتی تھیں کہ وہ انہیں اپنے پاس رکھے،لہذا وہ انہیں اپنی سہیلیوں میں بانٹ دیتی۔اور یوں وہ اپنی سہیلیوں کی رانی تھی۔
وہ اپنی ماں کی بھی رانی تھی۔وہ کبھی کام پر جانے سے منع نہیں کرتی تھی۔وہ صبح چھ بجے ہی اٹھ جاتی تھی۔وہ مغرب سے پہلے جھگی واپس نہیں آتی تھی۔اور کوڑے میں سے اٹھائے جانے والی وہ دو چیزیں جو وہ اپنے پاس رکھتی تھی،ان میں سے ایک چیز وہ اپنی ماں کو دے دیتی تھی۔وہ پیسے ہوتے تھے۔کبھی ایک روپیہ،کبھی دو روپے۔اور دوسری چیزوہ اپنے پاس ہی رکھتی تھی۔
اسکی ماں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا چیز تھی؟اس نے کبھی بتانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا چیز تھی؟وہ ان چند قیمتی چیزوں میں سے ایک تھی جسے بیچ کر انکی آمدن کا بڑا حصہ بنتا تھا۔اور اگر اسکا باپ جان لیتاکہ وہ اپنے پاس کیا رکھتی ہے؟تو وہ اسے بے انتہا مارتا،اسکی تمام تر تابعداری اور محنت کے باوجود۔اسکا باپ بھی ایک علیحدہ کردار تھا۔انکی جھگیوں کے عمومی کرداروں سے ہٹ کے۔اسکے باپ نے کبھی کسی نشہ آور چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا،جبکہ انکی جھگیوں میں تقریباً ہر مرد نشہ کرتا تھا،اور کبھی کوئی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔یہ رانی کے خاندان کی خوش قسمتی تھی کہ اسکا باپ نشہ نہیں کرتا تھا۔وہ صبح پونے چھ اٹھ جاتا،اپنے تینوں بچوں کو جگاتا۔جھگیوں میں کسی کے تین بچے نہیں تھے۔ہر ایک کے چھہ یا سات یا اس سے زیادہ بچے تھے مگر یہ بھی رانی کے خاندان کی خوش قسمتی  تھی کہ وہ تین بہن بھائی تھے۔



free urdu novel

free urdu novel
free urdu novel
free urdu novel


free urdu novel

No comments:

Post a Comment

Add your Comment